Thursday, March 28, 2024
ہومتازہ ترینعمران خان کی تباہی کے ذمہ دار بزدار، شہزاد اکبر اور بشری بی بی ہیں ،سینئر صحافی کے اہم انکشاف

عمران خان کی تباہی کے ذمہ دار بزدار، شہزاد اکبر اور بشری بی بی ہیں ،سینئر صحافی کے اہم انکشاف

سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سے طویل ملاقات کرنے والے سینئر صحافی جاوید چودھری نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کی تباہی کے ذمہ دار عثمان بزدار، شہزاد اکبر اور بشری بی بی ہیں۔
سینئر صحافی جاوید چودھری نے سابق آرمی چیف سے ملاقات کے بعد اپنے کالم میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکومت کی تباہی میں تین لوگوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔ عثمان بزدار، شہزاد اکبر اور خاتون اول ، عثمان بزدار صرف نالائق تھے بلکہ یہ انتہائی کرپٹ بھی تھے ۔ عثمان بزدار کو وزیراعلی بنوانے کا تمام تر سہرا احسن جمیل گجر کے سر جاتا ہے۔
سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ احسن جمیل گجر عثمان بزدار کوانٹرویو کے لیے پہلی مرتبہ اپنی گاڑی پر بنی گالا لے کر آئے تھے ۔ بزدار کو پارٹی میں جہانگیر ترین نے شامل کرایا تھا لیکن میٹنگ کے وقت جہانگیر ترین نے عثمان بزدار کو نہیں پہچانا اور عثمان بزدار شکل سے جہانگیر ترین کو نہیں جانتے تھے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان سے چند منٹ ملاقات ہوئی اور یہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلی سلیکٹ ہو گئے ۔ عثمان بزدار کو بنی گالا سے واپس لے جانے کی ذمے داری بھی احسن جمیل گجر کی تھی یہ انھیں لے کر نکلے تو انہوں نے آفرکی ۔ بزدار صاحب چلیے میں آپ کو گلوریا جینز سے کیپو چینو پلاتا ہوں ۔ احسن جمیل یہ جان کر حیران رہ گئے پنجاب کے مستقبل کے وزیراعلی گلوریا جینز سے بھی واقف نہیں تھے اور ان کے لیے کیپو چینو کا لفظ بھی اجنبی تھا۔
سینئر صحافی کے مطابق فوج اور پوری پی ٹی آئی اس تقرری کے خلاف تھی ۔ جنرل باجوہ ساڑھے تین سال وزیراعظم کو مسلسل سمجھاتے رہے۔ سر آپ پنجاب پر توجہ دیں صوبہ تباہ ہو گیا ہے لیکن عمران خان عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس سمجھتے رہے یہاں تک کہ ایک دن جنرل باجوہ عثمان بزدار کے کارناموں کی پوری فائل لے کر وزیراعظم کے پاس پہنچ گئے۔
یہ ایک ضخیم فائل تھی جس میں معمولی تقرریوں سے لے کر بڑے بڑے ٹھیکوں میں کک بیکس کے ثبوت تھے۔ جنرل باجوہ نے یہ فائل عمران خان کو دی اور کہا ۔ یہ کھیل کہاں سے آپریٹ ہو رہا ہے اور یہ پیسے کہاں جا رہے ہیں؟ میں اس معاملے میں ایک لفظ مزید نہیں بولوں گا۔
آپ خود اندازہ اور فیصلہ کریں وزیراعظم نے فائل دیکھنے کے بعد اگلے دن دوبارہ آرمی چیف سے ملاقات کی ۔ یہ پنجاب کی کرپشن منی کی آخری منزل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے مگر قمر جاوید باجوہ کا جواب تھا ایون نو ون ورڈ مور اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا یہ ثبوت کافی ہیں اور وزیراعظم اب یہ سلسلہ بند کرا دیں گے مگر دوسری طرف خاموشی گہری ہو گئی۔
ایک بار عمران خان بزدار کو تبدیل کرنے پر راضی ہوئے اور جنرل باجوہ سے مشورہ مانگا جنرل باجوہ نے جواب دیا آپ کے پاس دو امیدوار ہیں۔ علیم خان اور چودھری پرویز الہی۔ علیم خان کے پاس پیسہ ہے اور پرویز الہی کے پاس پولیٹیکل کیپیٹل آپ کو اگر امیر وزیراعلی چاہیے تو آپ علیم خان کو بنا دیں اور آپ اگر خود کو سیاسی لحاظ سے مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو پرویز الہی کو موقع دے دیں۔ فیصلہ بہرحال آپ نے کرنا ہے۔
عمران خان علیم خان کے لیے راضی ہو گئے ۔ علیم خان کو فوری طور پر لاہور سے بلا لیا گیا ۔ مبارک بادیں بھی ہو گئیں ۔ وزیراعظم نے دوسرے دن علیم خان کا اعلان کرنا تھا ۔ فواد چودھری نے رخصت ہوتے وقت جنرل باجوہ سے کہا باس آپ زیادہ خوش نہ ہوں ۔ درمیان میں ایک رات بھی ہے۔
وزیراعظم نے ابھی گھر بھی جانا ہے یہ فیصلہ صبح تک برقرار نہیں رہے گا اور دوسری صبح یہی ہوا عمران خان کا ارادہ بدل گیا ۔ علیم خان سے یہ بے عزتی برداشت نہیں ہوئی انھوں نے پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کر دی پی ٹی آئی نے ان کی ٹرولنگ شروع کر دی۔
علیم خان نے اس پر دھمکی دی آپ اگر باز نہ آئے تو میرے پاس جو کچھ ہے میں وہ پبلک کر دوں گا اس کے بعد آج تک پارٹی کی سینئر قیادت نے علیم خان کا نام نہیں لیا۔ ذرایع کا خیال ہے علیم خان کے پاس بھی آڈیو اور وڈیوز کا ٹھیک ٹھاک ذخیرہ موجود ہے اور یہ ذخیرہ اب تک ان کا دفاع کر رہا ہے۔
عمران خان کی حکومت کا دوسرا بڑا ڈیزاسٹر شہزاد اکبر تھا۔ یہ اخلاقی اور معاشی دونوں لحاظ سے کرپٹ انسان تھا اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم کو بار بار شہزاد اکبر کے کارناموں کے بارے میں بتاتی رہی لیکن وزیراعظم کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی یہ ان ثبوتوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔
یہاں تک کہ ایک بار جنرل باجوہ نے اپنا موبائل کھول کر وزیراعظم کو شہزاد اکبر کی ایک وڈیو بھی دکھا دی ،شہزاد اکبر اسلام آباد کی کسی سڑک پر گاڑی میں کسی خاتون کے ساتھ ناشائستہ حرکتیں کر رہا تھا ،گاڑی سے ذرا دور سی سی ٹی ڈی کیمرہ لگا ہوا تھا یہ حرکتیں اس کیمرے میں ریکارڈ ہو گئیں ،وزیراعظم نے اس ثبوت کو بھی اگنور کر دیا ،وزیراعظم کو جب آخر میں احساس ہوا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ خاتون اول کے بارے میں بھی بار بار وزیراعظم کو مطلع کرتی رہی۔ جنرل باجوہ کی خاتون اول سے پہلی ملاقات وزیراعظم ہاوس میں ہوئی تھی۔ وزیراعظم نے حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم ہاوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا تھا اور یہ پی ایم ہاوس میں ملٹری سیکرٹری کے بنگلے میں رہتے تھے ۔ وزیراعظم نے آرمی چیف اور بیگم باجوہ کو کھانے کی دعوت دی۔
کھانے کی میز پر چار لوگ تھے عمران خان جنرل باجوہ خاتون اول اور بیگم باجوہ عمران خان نے میز پر بیٹھتے ہی حسب معمول کسی دوسرے کا انتظار کیے بغیر کھانا شروع کر دیا جنرل باجوہ بھی دائیں بائیں دیکھ کر کھانا کھانے لگے لیکن خاتون اول برقعے میں تھیں اور وہ کھانا نہیں کھا رہی تھیں۔
جنرل باجوہ نے ان سے کھانے کی درخواست کی تو خاتون اول نے جواب دیا میں بعد میں اپنے کمرے میں کھاوں گی ،کھانے کے بعد وزیراعظم اور جنرل باجوہ ڈرائنگ روم میں آ گئے اور دونوں خواتین زنانہ حصے میں چلی گئیں واپسی پر راستے میں بیگم صاحبہ نے جنرل باجوہ سے کہا آپ اگر وزیراعظم کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں جنرل باجوہ نے تفصیل پوچھی لیکن بیگم صاحبہ نے اس موضوع پر مزید بات کرنے سے انکار کر دیا ۔ جنرل عاصم منیر25 اکتوبر2018کو ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے۔
یہ بھی وزیراعظم کو مختلف اوقات میں مطلع کرتے رہے ۔ یہ آخر میں وزیراعظم کے پاس ثبوت بھی لے کر گئے لیکن وزیراعظم نے ثبوت پر توجہ دینے کے بجائے ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کی خواہش ظاہر کر دی وزیراعظم جنرل فیض حمید کو ڈی جی لگانا چاہتے تھے جنرل باجوہ نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی سر فوج میں افسر کچھ نہیں ہوتے ادارہ ہوتا ہے جنرل عاصم شان دار افسر ہیں۔
آپ کا فیصلہ درست نہیں مگر عمران خان نہیں مانے جنرل باجوہ ہر فورم پر کہتے ہیں فوج نے عمران خان کی محبت میں دو جرنیلوں کے امیج اور دو کے کیریئرکی قربانی دییہ جنرلز قمر جاوید باجوہعاصم منیر فیض حمید اور فیصل نصیر ہیں بہرحال اللہ تعالی کو جنرل عاصم منیر کی عاجزی پسند آ گئی اور اسے اس نے وہاں پہنچا دیا جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا حکومت کے زیادہ تر اہم فیصلے خاتون اول کرتی ہیں۔
یہ اگر اجازت دیں گی تو وزیراعظم دوسرے ملک کا دورہ کریں گے اور یہ اگر وزیراعظم کو بلا لیں گی تو یہ میٹنگ سے اٹھ کر چلے جائیں گے وزیراعظم نے ساڑھے تین سالوں میں برطانیہ کا دورہ نہیں کیا کیوں؟ کیوں کہ خاتون اول نہیں چاہتی تھیں عمران خان لندن جائیں اور اپنے بیٹوں سے ملاقات کریں۔
اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار بڑی کوشش کر کے2021 میں برطانیہ سے وزیراعظم کا انوی ٹیشن منگوایا لیکن وزیراعظم نے یہ دورہ اچانک ملتوی کر دیا برطانوی ہائی کمشنراس پرروہانسا ہوگیا یہ برطانیہ اور ہائی کمشنر کی بے عزتی تھی جنرل باجوہ نے اس سے کہا ایکسی لینسی وزیراعظم میرا باس ہے۔
میں اسے کیسے مجبور کر سکتا ہوں؟ وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی مگر یہ نہیں مانے اور یوں برطانیہ کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہو گئے اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا یہ فیصلے خاتون اول کر رہی ہیں اور وزیراعظم ان کے زیر اثر ہیں۔
جب وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی تو ان کا جواب ہوتا تھا بشریٰ بی بی ایک متقی اور پرہیز گار خاتون ہیں یہ چھتیس چھتیس گھنٹے کا روزہ رکھتی ہیں اور بتانے والے ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر خاموش ہو جاتے تھے۔