Thursday, March 28, 2024
ہومکھیلافتخار احمد کو چاچا کا لقب کیسے ملا؟ کرکٹر نے دلچسپ کہانی سنادی

افتخار احمد کو چاچا کا لقب کیسے ملا؟ کرکٹر نے دلچسپ کہانی سنادی

قومی کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر افتخار احمد نے کہا ہے کہ انہیں برا لگتا ہے جب ان کی عمر سے متعلق باتیں کی جاتی ہیں۔
بنگلا دیش پریمیئر لیگ میں فارچیون باریشال کی نمائندگی کرنے والے افتخار احمد نے کرکٹ ویب سائٹ کو انٹرویو میں کہا کہ بی پی ایل پہلی مرتبہ کھیل رہا ہوں اور میں یہاں بہت لطف اندوز ہو رہا ہوں، شکیب الحسن کی قیادت میں سب فیملی کی طرح کھیل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلی ٹی ٹوئنٹی سنچری میرے کیرئیر کا ایک بڑا موقع ہے، مختصر دورانیے کی کرکٹ میں مڈل آرڈر کے لیے وقت کم ہوتا ہے، میں اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ کھیلتا ہوں کہ مجھے چار آٹ ہونے کے بعد بیٹنگ کرنی ہے۔
افتخار احمد نے کہا کہ کرکٹ کا عمر سے تعلق نہیں، پرفارمنس کی اہمیت ہوتی ہے، آپ ان کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں جو اچھا پرفارم کریں اور جتوائیں ،انڈیا اور آسٹریلیا جیسی ٹیموں میں بھی 30 برس سے زائد کھلاڑیوں کو کھلایا جاتا ہے، 30 برس کی عمر کے بعد کھلاڑی دماغی طور مضبوط ہوتا ہے اور اچھا کھیلتا ہے۔
قومی کرکٹر کا کہنا تھاکہ میرے کانوں میں یہ بات پڑتی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو کھلایا جائے، مجھے یہ برا لگتا ہے، میں بھی آخر انسان ہوں،لوگ پتا نہیں کیا سوچ کر کہتے ہیں لیکن میرا فوکس کھیل پر ہوتا ہے، مجھے چاچا لوگوں نے کہنا شروع کیا اور اسے مشہور کیا،لوگ جو بھی کہتے ہیں میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ بابر اعظم نے ایک مرتبہ زمبابوے کے دورے پر مجھے چاچائے کرکٹ کہا جو اسٹمپ مائیک میں سب نے سنا، بابر اعظم نے میرے کہنے پر فیلڈنگ تبدیل کی اور اس پر وکٹ مل گئی تھی، بابر اعظم نے کہا کہ آپ چاچائے کرکٹ ہو،جب میچ ختم ہوا تو ہر طرف چاچا کرکٹ کی آواز آرہی تھی، مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا، مجھے میرے دوست نے بتایا کہ مائیک پر سب نے سنا ہے۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ میں بس یہ کہتا ہوں کہ لوگ لاکھوں کروڑوں روپے برینڈ بنانے پر لگاتے ہیں اللہ نے مجھے چاچا کرکٹ کا مفت برینڈ دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مصباح الحق، یونس خان اور شعیب ملک جیسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،ان کرکٹرز نے 30 برس سے اوپر ہونے کے بعد بہت کچھ حاصل کیا۔
افتخار احمد نے کہا کہ مجھے نہیں پتا لوگوں کو کیسے خوش کرنا ہے اور میں خوش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا، ون ڈے کرکٹ میں مجھے کھیلنے کے لیے زیادہ تر بہت کم اوورز ملتے ہیں، جب بھی زیادہ موقع ملا میں نے ٹیم کے لیے رنز کیے ہیں، مجھے نیچے بیٹنگ کے لیے بھیجا جاتا رہا ہے، میں نے مینجمنٹ سے بات بھی کی تھی، ڈومیسٹک میں میں مستقل چوتھے نمبر پر کھیلتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے کسی کو ڈویلپ کرنا ہے تو اس کھلاڑی کو مستقل موقع دیں، 2016 کے بعد مجھے ٹیسٹ میں 2020 اور پھر 2022 میں ٹیسٹ اننگز ملی، میں نے 20 یا 22رنز کیے اور پھر مجھے ڈراپ دیا گیا، اس پر دکھ ہوتا ہے، دو ٹیسٹ میں ٹیم کے ساتھ ہوتا ہوں اور پھر اسکواڈ سے نکال دیا جاتا ہے، یہ سب چھوٹی چیزیں ہیں لیکن تکلیف دہ ہیں، میں ون ڈے اور ٹیسٹ کو پسند کرتا ہوں لیکن میں بدقسمت رہا ہوں، لسٹ اے میں میری پرفامنس ورلڈ میں چوتھے پانچویں نمبر پر ہے،یہ دیکھیں ون ڈے اور ٹیسٹ میں مواقع کتنے ملے میں ملک کے لیے پرفارم چاہتا ہوں۔
قومی کرکٹر نے کہا کہ مصباح الحق سے کھلاڑی اور انسان کی حیثیت سے متاثر ہوں، انہوں نے مجھے مواقع دیے۔