Friday, April 19, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزہم انسان خساروں کے سوداگر ہیں

ہم انسان خساروں کے سوداگر ہیں


لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
انسان کا اس دنیا میں مقصد و کردار کیا تھا؟ مگر انسان نے اسے کیا بنا دیا
انسان کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔ لیکن انسان یہ سب بھول کر دنیا کا مال سمیٹنے میں لگ گیا
نفسا نفسی کے اس دور میں مال و دولت کی ہوس نے رشتے ناطوں سب پر فوقیت حاصل کرلی ہے۔ قارون کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں اور گھوڑوں پر لادی جاتی تھیں مرتے وقت سب کچھ دنیا میں ہی چھوڑ کر گیا، سکندر اعظم نے دنیا فتح کی مگر اس دنیا سے جب رخصت ہوا تو خالی ہاتھ تھا،  دولت کے پجاریوں کی دولت، شان و شوکت دنیا میں ہی رہ گئی ہے
یہ زندگی اور اس کے نہ ختم ہونے والے لالچ اور اس کی لامتناہی حرص کی اصل حقیقت ہے ہم انسان اپنے گرد لالچ کی وسیع دیوار بناتے ہیں
اور مال جمع کرتے ہیں۔ انسان دوسروں کی عمر بھر کی کمائی لوٹ رہے ہیں اور قارون کی طرح خزانے بنانے میں صبح و شام مصروف عمل ہیں۔

لیکن آخر میں انسان جب چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور یہ مال دوسروں کے کام آجاتا ہے

نورجہاں کا مقبرہ  نشئیوں کی پناہ گاہ بن جاتا ہے جبکہ شاہ جہاں کے تاج محل میں انگریزوں کو اصطبل بنادیا تھا۔

ہم انسان ان چیونٹیوں سے بھی بدتر ہیں جو عمر بھر اپنے جثے سے بڑے دانے کھینچتی رہتی ہیں،
انہیں کھینچ دھکیل کر بلوں تک لاتی ہیں اور جب دانوں کا انبار لگ جاتا ہے، تو وہ ان کے سرہانے گرکر مر جاتی ہیں۔
اور پھر ان کی عمر بھر کی جمع پونجی چوہوں اور دوسرے زمینی جانوروں کا نوالہ بن جاتی ہے
ہم میں سے اکثر لوگ چونٹیاں ہیں انسان نے وہ کام بھی خود کے ذمے لگا لیے ہیں جن کا ذمہ خود اللہ پاک نے اٹھایا ہے ہم رزق کے پیچھے لگ گئے ہیں جبکہ رزق کی فراہمی اللہ پاک نے اپنے ذمے لگا رکھی ہے

ہم انسان جانتے ہیں کہ ہم خسارے کے سوداگر ہیں