Thursday, April 25, 2024
ہومUncategorizedبہتری کی گنجائش

بہتری کی گنجائش

تحریر: سہیل احمد چوہدری

@iSohailCh

شروع کرتے ہیں 80 سے 90 کے دور سے

میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن علاقے میں پرائیویٹ سکول وہ بھی بابا جی کے نام سے مشہور تھا.مزاج بہت کڑک ، شاید بزرگ ہوتے ہی کڑک تھے۔ اس وقت ایک بہترین نظام چل رہا تھا سرکارہو یا پرائیویٹ بندہ ہرایک گود سے لے کر گور تک اپنے اپنے دائرے میں لگے ہوئے تھے. ہاں بات لوڈشیڈنگ کی تو اس وقت بھی ہوا کرتی تھی. آبادی کم ہونے پرعلاقے اورمکان اس طرح ترتیب دیئے جاتے تھے کہ ٹھنڈے رہیں ماحول اور صحبت کا واقعی اثر ہوتا ہے
گھر میں ماں باپ بوڑھے بزرگوں سے فاصلے پر بیٹھتے تھے اور بہو کی تو جرآت نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی اللہ کی رحمت صبح صادق کو نماز سے دن کا آغاز ہوا کرتا تھا بچوں کو مساجد میں نماز کے ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا اس کے فورا بعد ناشتہ اورسکول کی تیاری ہوا کرتی تھی. سکول سے واپس آکر گلی میں کرکٹ یا کوئی کھیل کے بعد پڑھائی پھرکھانا اور پوا گھر ایک بلیک اینڈ ٹی وی پر 8 بجے ڈرامہ اور پھر 9 کے بعد پردہ دار خاتوں گھر کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر بھی دکھائی دیتی تھی وہ بھی دن بھر کی خبروں کا مجموعہ پھر گھر اور ٹی وی ٹرالی کے دروازے بند کردیئے جاتے تھے. اس وقت 10 بچے ماں پالتی تھی اور گھر والوں کی تابعداری میں اعلی ،موٹر سائیکل ،کار ،جیپ اے سی، سب سہولتیں پھربھی ناشکری عام طور پرگھرسے باہرکا کھانا عام روٹین ساس سسرکی کوئی روک تھام نہیں ۔ اتنی سہولتیں پھر بھی ہم خسارے میں کیوں؟

اتفاق ہی اتفاق بڑے بوڑھے کی عزت اور چھوٹوں پرشفقت ،تربیت پر گھر سے لیکر تعلیمی میدان سے رہنما کو مقام دیا جاتا تھا۔ آج ہم بہت آگے چلے گئے ہیں ؟
محلے میں اگر کسی کے ہاں کوئی خوشی غمی آتی تو رشتہ داروں صرف ان کی خدمت کرتے تھے باقی کام محلے دار ہی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ریاستی ادارے اپنے کاموں میں لگے رہتے اورعوام اپنی ذمہ داریاں بخوشی انجام دیتے تھے۔

اچھی طرح یاد ہےکہ ایک مرتبہ چینی مہنگی ہوئی تھی تو لوگ میدان میں نکل آئے اور حکومت وقت کو فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔  بالکل یوپین ممالک کی طرز کا احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا تھا۔ اب کسی چیز کے نرخ بڑھتے ہیں تو کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

رات دیرتک جاگنا، صبح تاخیرسے اٹھنا ۔ رہی سہی کسر چھوٹے بڑے میں تمیز بھی ختم۔
میں بہت فکر کرتا ہوں دوسروں کی طرف دیکھ کر غصہ بھی بہت آتا ہے.کیونکہ گھر سے لیکر سکول سکول سے لے کرنوکری ہر جگہ سخت اساتذہ سے واسطہ پڑا۔ شاید یہ اس وقت کی ریت ورواج تھا۔ آج بھی ماتحت ملازمین سخت رویے کی بدولت سرپھرا بھی کہتے ہیں کیا کریں ہم تو اپنی تربیت بل بوتے کھڑا رہنے پرمجبور ہیں ورنہ نئی تعمیر ہونے والی بلڈنگ کے میٹریل اور ڈھانچے سے تو سب واقف ہیں ۔ بنکوں نے قسطوں پر چیزیں دے دے کر عوام میں حرام حلال کی تمیز ختم کر دی ہےآخر میں ہم سب یہی بحث کرتے ہیں کہ بچوں کا کیا بنے گا.کیونکہ تعلیم اور روزمرہ اخراجات نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔

جوسب سے اہم چیز شاید ہم بھول رہے ہیں اورمسلسل نظر انداز بھی کر رہے ہیں وہ ہے تربیت
جس پر بہتری کی گنجائش تو ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔

کیا خیال ہے آپ کا

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔