Friday, March 29, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزمعروف ماہرتعلیم گل سمبربیگم کو بچھڑے ایک برس ہوگیا

معروف ماہرتعلیم گل سمبربیگم کو بچھڑے ایک برس ہوگیا

تحریر: سیدنذیرحسین شاہ نذیر
وہ خاتون بذات خود اپنی ذات میں انجمن تھی،ہرایک کے دکھ درد میں اپنوں کی طرح شریک ہوتی تھی ،غریب پروری،رشتوں کی قدردانی ان کی مزاج میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ معروف ماہرتعلیم سابق ڈی ای اومحکمہ ایجوکیشن چترال گل سمبربیگم مرحومہ چھوٹوں اوربڑوں میں یکساں مقبول ،غریبوں کایار،دل کاسچاایک باہمت خاتون تھی۔ یقین نہیں ہوتاکہ وہ ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا۔محبت کرنے والادل ہی انسانیت کا درد جانتا ہے، یہ گل سمبربیگم مرحوم کی خاصیت تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے دل کو دوسروں کے دکھوں سے بھرلیا تھا اور اپنا غم ہمیشہ چھپاتے رہے۔ آج سے ایک برس قبل 25 فروری2021 بروزجمعرات رات کےتقریباً دس بجےکے قریب اپنوں، عزیزوں و اقربا اور فیملی کو روتا چھوڑ کر اس دارفانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کر گئے۔مگر ان کی محبت اور شفقت کبھی دلوں سے باہر نہیں جا سکتی ۔مگران کی یادین ہمیشہ زندہ رہے گا۔
گل سمبربیگم چترال میں تعلیم نسوان کی ترویج میں گران قدرخدمات انجام دی ہیں۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے ۔ نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔ وہ علم کی روشنی پھیلانے کے ساتھ ساتھ روایات،تہذیب،شرافت،اخلاق اور تمدن کا ہر لحاظ سے پاسداری کرنے والی خاتون تھی ۔ ان کی خدمات رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ وہ انتہائی پرخلوص ، کم گو اور مہربان انسان تھیں۔
گلسمبربیگم چترال کو پہلی لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور چترال کی پہلی خاتون کمیشنڈ آفیسرہونے کا اعزاز تھیں۔ وہ کئی سالوں تک آغاخان ہیلتھ سروسز کے ساتھ صحت کے شعبے میں اور پھر محکمہ ایجوکیشن خیبرپختونخوا میں بحیثیت مدرس، ہیڈ مسٹریس، پرنسپل اورڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بہترین خدمات انجام دی تھیں۔ وہ طالبات میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے اور ان کے اندر تعلیمی روح پھونکنے کی کوشش کرتی تھی تاکہ وہ خود بخود تعلیم کی طرف کھینچے چلے آئیں۔ وہ اساتذہ کے مختلف ورکشاپس ،سمینار اوردیگرپروگرامات میں یہی الفاظ باربارکہتی تھی۔
استاد بننے کے لیے تعلیمی ڈگریاں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ زندگی کے ہرموڑ پر توجہ دیتے ہوئے اپنے لباس، اپنی گفتگو، چلنے کا ڈھنگ، تنہا ہو یا محفل میں بیٹھنے اٹھنے کا سلیقہ، اپنے چھوٹوں اور بڑوں سے برتاؤ کا سلیقہ، اپنے شاگردوں اور ان کے سرپرستوں سے میل جول کا ڈھنگ، اپنے عہدیداروں یعنی انتظامیہ کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آناچاہیے اوریہ بھی کہتی تھی کہ بچوں کی تربیت کے لئے والدین کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں البتہ والدین کا سمجھدار ہونا انتہائی ضروری ہے ۔
ممتازماہر تعلیم گل سمبر بیگم کا تعلق اپر چترال سے ہے ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول ریشن سے حاصل کی۔ اس کے بعد کراچی چلی گئی جہاں بنیادی ہیلتھ کئیر میں ڈپلومہ کرکے واپس چترال آئی اور مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیتی رہی ۔ سن 1981ء میں محکمہ تعلیم میں بحیثیت سنئیر انگلش ٹیچر بھرتی ہوئے ۔ 1992ء میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے گریڈ 17 میں ہیڈ مسٹریس پھر فیمل ڈی ای ا و ، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور آخر میں ای ڈی او ایجوکیشن کی حیثیت سے سن 2011ء میں وہ ریٹائر ہوگئی تھیں۔
سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسرگل سمبربیگم ایک ایماندار،دیانتدارفرض شناس خاتون آفیسرتھی ایسے بڑے عہدوں پراپنے فرائض منصبی سرانجام دینے والے آفیسرزکہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دباویالالچ کاشکارہوتے ہیں مگرمحترمہ گل سمبربیگم مرحومہ نے ہمیشہ سچ کاعلم بلندکیاہے ،ہمیشہ غلط کوغلط اورصحیح کوصحیح کہاہے۔
گل سمبربیگم کواس جہان فانی سے گزرے ہوئی ایک سال بیت گیامگریوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے وہ آج بھی ہمارے درمیان موجودہیں اورکسی بھی دم ہنستے،مسکراتے چلی آئی گی،مگرازل سے قدرت کایہ نظام رہاہے جواس دنیاسے ایک بارگزرجاتے ہیں وہ پھرکبھی لوٹ کرنہیں آتے ۔بس ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں ۔ جورہ رہ کرپلکوں پراشکوں کے چراغ جلاتی ہیں ۔ خوشی اورغم کا چولی دامن کاساتھ ہے ۔خوشیاں انسان کے لئے سکون وراحت کاباعث ہوتی ہیں توافسردگی اورافسوسناک واقعات اسے دکھی کردیتے ہیں خوشی کے ساتھ غم اورغم کے ساتھ خوشی باہم جڑ ے ہوئے ہیں۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انسان اپنے علم وہنر سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے مگر انسان کی شناخت کی اصل بنیاد اس کا علم و فن ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق و کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ موت ایک حقیقت ہے لیکن بعض موتین ایسی ہوتی ہیں جوذہنون پرنقش چھوڑجاتی ہے اور اچانک جدائی کی خبر دل ودماغ کوگہراصدماپہنچاتاہے ۔ کسی بھی قریبی رشتہ دار،دوست یاہمدرد کے انتقال کے صدمے سے دو چار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے اس حقیقت سے ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے ۔ اُس وقت انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ان کی روح کو دائمی زندگی کی مسرتوں سے نوازے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)۔