Friday, March 29, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزگلگت بلتستان میں ٹیلی کام کی ترقی کے لئے صوبائی حکومت کی ذمہ داریاں

گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کی ترقی کے لئے صوبائی حکومت کی ذمہ داریاں

تحریر : راجہ نورالامین
گزشتہ دہائی میں ایک چیز دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگی و معاشرتی رویوں اور سماج پر جو سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی وہ ٹیلی کمیونیکیشن ہے۔ جیسے روٹی کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات ہیں اسی طرح موجودہ دور میں ٹیلی کام اور خاص کر انٹرنیٹ تک رسائی دنیا کے تقریباً ہر فرد کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ حکومت،افواج، کاروباری ادارے،صنعتی ادارے،میڈیا اور تعلیمی ادارے غرض کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جو ٹیلی کام (انٹرنیٹ) پر انحصار نہ کرتا ہو۔ لیکن ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کی فراہمی بجلی،پانی، گیس اور دیگر یوٹیلٹیز کی فراہمی کے برعکس ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔غرض یہ کہ موجودہ دور میں ٹیلی کام اور ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔
اسی تناظر میں گلگت بلتستان کی سطح پر وفاق کی جانب سے ایک سرکاری ادارے ایس سی او کو کئی دہائیوں پہلے سے یہاں پر ٹیلی کام کی سروسز کی فراہمی کی ذمہ داری دی گئی تھی جو کہ اس ادارے نے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے ممکن حد تک عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ ادارہ خطے کے مشکل حالات، مخصوص جغرافیائی ساخت اور محدود وسائل کے باوجود گلگت بلتستان کے کونے کونے تک بنیادی اور جدید ٹیلی کام سروسز مہیا کرنے کے لیے عرصہ دراز سے برسر پیکار ہے۔ اس دوران ایس سی او کے کئی کارکنان نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے. برسہا برس کی محنت اور جدوجہد کی بدولت آج گلگت بلتستان میں ایس سی او ٹیلی کام کی تمام سروسز یعنی لینڈ لائن براڈ بینڈ انٹرنیٹ تھری جی فور جی جیسے سروسز مہیا کرنے والا واحد اور سب سے بڑا ٹیلی کام آپریٹر بن چکا ہے۔اور خاص کر حال ہی میں فائبر ٹو ہوم جیسی جدید اور تیز ترین انٹرنیٹ اور سمارٹ ٹی وی پر مشتمل سروس جو کہ ملک میں چند گنے چنے شہروں میں ایک ہائی پروفائل سروس کی شکل میں مہیا ہے ایس سی او نے گلگت بلتستان میں عام صارف کے لیے یہ سروس متعارف کروا کر ایک مثال قائم کی ہے۔ نیزاس ادارے نے جدید ٹیکنالوجی اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جی بی کے طول و عرض میں صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور جدید ٹیلی کام سروسز تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے جس کی وجہ سے خطے میں صارفین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ ایس سی او نے گزشتہ چند سالوں کے دوران گلگت بلتستان کے طول و عرض میں 4800 کلومیٹر سے زائد نیٹ ورک بچھانے سمیت ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بڑا انفراسٹرکچر قائم کیا ہے۔جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر تمام پرائیویٹ ٹیلی کام نیٹ ورکس کی سروسز خطے میں نہ صرف محدود ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن خطے میں ایس سی او کی ایک طویل عرصے سے ٹیلی کام کے شعبے کو وسعت اور فروغ دینے نیز گلگت بلتستان کے عوام اور صارفین کو ٹیلی کام کی جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہمہ وقت کام کرنے کے باوجود پچھلے کئی عرصے سے کچھ مخصوص حلقوں اور غیر حقیقت پسند سوچ کے حامل افراد کی جانب سے اکثر و بیشتر اور مسلسل یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش ہوتی رہی ہے کہ ایس سی او دیگر تمام نیٹ ورکس کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ان کو یہاں آکر کام کرنے نہیں دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس منفی پروپیگنڈہ کا اثر یہ ہوا کہ عام پبلک اورحکومتی اداروں میں یہ تاثر پھیل گیا کہ کہیں واقعی ایسا تو نہیں۔ لہذا انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اور عجلت میں کچھ اقدامات اٹھائے۔ جیسا کہ سال 2021-22 کے لیے گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایس سی او کو مہیا ہونے والے فنڈز کو حکومت نے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ دیگر نیٹ ورکس کو یہاں آنے کے لئے آمادہ کریں گے۔ لہٰذا اسی تناظر میں دیگر پرائیویٹ ٹیلی کام نیٹ ورکس کو گلگت بلتستان میں تھری جی فور جی سروس شروع کرنے کے لئے سپیکٹرم اور لائسنس بھی فراھم کیاگیا جس کی عدم موجودگی کو جواز بنا کر باقی ٹیلی کام کمپنیز جی بی میں فورجی سروس فراہم نہیں کر رہی تھیں۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی مہینے گزرنے کے باوجود دیگر تمام پرائیویٹ نیٹ ورکس ابھی تک یہاں کے عوام کی سہولیات فراہم کرنے میں بالکل بھی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہیں۔
یہاں کے عوام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دیگر پرائیویٹ ٹیلی کام نیٹ ورکس گلگت بلتستان میں آکر اپنا سرمایہ تھری جی فور جی سروس مہیا کرنے کے لیے کیوں استعمال کریں گے جہاں سے ان کو منافع کی کوئی امید نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لائسنس حاصل کرنے کے بعد اس بات کے پابند ہے کہ وہ اپنی سروسز یہاں کے عوام کو مہیا کریں۔ اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے اور یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے کہ ایس سی او نے کبھی بھی کسی بھی پرائیویٹ نیٹورک کو یہاں آکر تھری یا فور جی جیسی جدید سروس مہیا کرنے سے نہیں روکا ہے۔ اس صورتحال میں صوبائی وزیر اعلیٰ بھی خاصے مایوس اور ناامید نظرآ رہے ہیں۔اور انہوں نے گزشتہ دنوں کھل کر یہ بات کہی ہے کہ گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کے شعبے کو مستحکم کرنے اور فروغ دینے والا واحد ادارہ ایس سی او ہی ہے ۔
لہذا حکومت کو موجودہ صورتحال اور تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مدبرانہ اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور خاص کر گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے مختص کیے جانے والے تمام فنڈز کو ریلیز کروانے اور ایس سی او کو اپنے جاری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے حوالے سے موجود تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اس پیش رفت سے براہ راست فائدہ یہاں کے عوام اور ٹیلی کام کے صارفین کو ہی حاصل ہو گا۔ خدا نخاستہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں خطے میں عرصہ دراز سے ٹیلی کام سروسز مہیا کرنے والے حکومتی ادارے کے جاری منصوبے کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔