Friday, March 29, 2024
ہومپاکستانیونیورسٹی ٹیچرز کا مسائل حل نہ ہونے پر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان

یونیورسٹی ٹیچرز کا مسائل حل نہ ہونے پر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان

اسلام آباد-آل پاکستان یونیورسٹیزبی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن(اپوبٹا) کے صدرڈاکٹر سمیع الرحمان نے وزیراعظم پاکستان میاں محمدشہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹیزمیں کام کرنے بی پی ایس فیکلٹی کے مسائل جلد از جلد حل کئے جائیںاوروہ 05 اکتوبر یوم اساتذہ کے موقع پر یونیورسٹی کی فکیلٹی کیلئے پروموشن پالیسی کی منظوری دیکر علم،تعلیم اور اساتذہ دوست ہونے کا ثبوت دیں تاکہ اساتذہ کلاسز کا بائیکاٹ کرکے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور نہ ہوں،

ہمارے جائز مطالبات نہ مانے گئے تو مجبورا” سڑکوں پر آنے پر مجبور ہونگے، انہوں نے یہ باتیں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں تنظیم کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر امتیاز احمد، ڈاکٹر امتیاز شفیق، ڈاکٹر آصف جان، ڈاکٹر حفصہ، ڈاکٹر منظور ناظر،ڈاکٹر ہدایت اللہ و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہیں، ڈاکٹر سمیع الرحمان کا مزید کہناتھا کہ ایچ ای سی کا قیام 2002 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے عمل میںآیا،جس کے دفعہ 10 کیو کے تحت ایچ ای سی نے یونیورسٹی اساتذہ کی تقرری اور ترقی کیلئے کم ازکم اہلیت کا تعین کرنا تھا، 2008 تک ایچ ای سی نے ترقی کی کوئی ہدایات فراہم نہیں کی بلکہ اس کے بجائیایک نیا تجربہ کرتے ہوئے ایک نیا نظام متعارف کروا دیاجسے ٹنیور ٹریک سسٹم کا نام دیا گیا،اس نظام کیلئے واضح پالیسی بنائی گئی جس کے تحت مطلوبہ اہلیت رکھنے والا فیکلٹی ممبر بغیر کسی پوسٹ کی تشہیر اور بغیر کسی ٹیسٹ انٹرویو کے اگلے گریڈ میں ترقی کرجاتا ہے

، تاہم اس کے برعکس بی پی ایس فیکلٹی کیلئے نئی پوسٹ کی تخلیق ، تشہیر،اورٹیسٹ انٹرویوجیسے مراحل کے ذریعے ڈائریکٹ تقرری کے علاوہ ترقی کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا،نیز اس سارے عمل میں بھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کون سی پوسٹ کب تخلیق، مشتہراور انٹرویو کرتا ہے،جس کا یہ نقصان ہوا کہ کم تجربہ کار فیکلٹی ممبران ٹی ٹی ایس کیذریعیترقیاں کرکے اعلی عہدوں پر براجمان ہو گئیجبکہ زیادہ تجربہ والے لوگوں کی ترقی کو منجمند کر دیا گیا،اس امتیازی سلوک سے تعلیمی اداروں میں بدانتظامی، غیر معیاری تعلیم و تحقیق ، تحقیقی بدعنوانی،ناساز گار ماحول، ذاتی پسند و نا پسند کے استعمال سمیت کئی مسائل نے جنم لیا،ملک بھر کی یونیورسٹیز کی 88 فیصد فیکلٹی(تقریبا” 40 ہزار ملازمین) کے کیریئر کو ترقی سے محروم رکھا گیا ہیجبکہ 12 فیصد فیکلٹی کو بھاری تنخواہ کیساترقی کے مواقع بھی فراہم کئے جارہے ہیں

،اس حق تلفی اور نا انصافی پر 88 فیصد فیکلٹی شدید ذہنی کرب، احساس محرومی، اور دیگر سنگین مسائل کا شکار ہے، اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تین برس قبل ایچ ای سی سے رابطہ کیا گیااور انہیں پروموشن پالیسی کا مسودہ بنا کر پیش کیا گیا،جسے ایچ ای سی نے تمام یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کو بھیجا جس پر کسی نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا،ایچ ای سی انتظامیہ نے اپوبٹا سے کئی بار اس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیا مگر تاحال یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا ہے،10 مارچ 2022 کو احتجاج کے نتیجہ میں ایچ ای سی کیساتھ ایک تحریری معاہدہ طے پایا جس کے مطابق یہ معاملہ وسط مئی تک حل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی مگر پھر بھی معاملہ زیر التوا ہی رہا،پروموشن پالیسی کا یہ مسئلہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم میں بھی زیر بحث لایا جا چکا ہے جس میں ایچ ای سی کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ اس معاملے کو فوری حل کیا جائے مگر تاحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں اور سڑکوں پرنہیں آنا چاہتے تاہم اگر ان کے جائز مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو وہ کلاسز اور تعلیمی سرگرمیوں کے بائیکاٹ اور سڑکوں پر آکر احتجاج پر مجبور ہونگے۔