Friday, April 19, 2024
ہومدنیاجمہوریت کا کوئی طےشدہ ماڈل نہیں ہے، چینی میڈ یا

جمہوریت کا کوئی طےشدہ ماڈل نہیں ہے، چینی میڈ یا

دنیا کو جمہوریت یا آمریت کے بائنری لیبل میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ
بیجنگ ()
سنگاپور کے نائب وزیر اعظم لارنس وونگ نے 28 ویں نکی فورم “ایشیا کا مستقبل” سے خطاب میں کہا کہ سنگاپور دوسرے ممالک کے جمہوری ماڈل کی اندھا دھند نقل نہیں کرتا۔ تمام ممالک کےاپنے اپنے ثقافتی و تاریخی ورثے اور اپنی حکمرانی اور سیاست کے نظام ہیں، جن کا احترام کیا جانا چاہیئے۔ دنیا کو آسانی سے جمہوریت یا آمریت کے بائنری لیبل میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اور مزید اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے یکسوئی سے
تعاون و ترقی کی جستجو کرنی چاہیے۔جمہوریت کے حوالےسے سنگاپور کے نائب وزیر اعظم کی وضاحت نے نہ صرف بہت سے ممالک کی آواز کو توانا کیا ہے بلکہ جمہوریت کے حقیقی معنی کو بھی ظاہر کیا ہے۔ بد ھ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
لفظ “جمہوریت”، جو قدیم یونانی زبان سے اخذ کیا گیا ہے، اس کا اصل مطلب ہے “عوام کی حکمرانی” اور “حاکمیت عوام کے لیے”۔ سیاسی نظام کی ایک شکل کے طور پر ، جمہوریت کی تاریخ2500 سال سے زیادہ پرانی ہے ، جس میں قدیم ایتھنز میں شہریوں کی براہ راست جمہوری حکومت سے لے کرنمائندگی کے نظام پر مبنی جدید حکومت تک بہت سی شکلوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مختلف ممالک میں جمہوری نظام کا قیام اور جمہوری عمل کی ترقی کا اپنا تاریخی اور قومی کردار ہے اور ان کی اپنی منفرد اقدار ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت بھی ترقی کرتی ہے۔ اگر جمہوری نظام وقت اور قومی حالات کے تقاضوں کو برقرار نہ رکھ سکا تو یہ اپنے وجود کی سماجی بنیاد کھو دے گا۔ لہٰذا سماجی بنیادوں اور ثقافتی روایات سے الگ تھلگ ہوکر جمہوری نظام کی اچھائی اور برائی کا موازنہ کرنا نہ تو معقول ہے اور نہ ہی معنی خیز۔
چین اور امریکہ کو مثال کے طور پر دیکھیں۔ امریکہ میں جمہوریت کا تعلق اپنے قیام کے آغاز میں امریکی معاشرے میں قائدانہ جذبے، مساوات کے شعور اور قانون کی حکمرانی پر یقین سے ہے۔ لیکن دو سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد، آج امریکی معاشرے میں عدم مساوات، سرمایہ دارانہ اجارہ داری، سیاسی پولرائزیشن، اور نسلی اختلافات عروج پر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسائل درینہ ہیں اور ان کی جڑیں بہت زیادہ گہری ہیں ، جس کے باعث زیادہ تر امریکیوں نےخود امریکی جمہوریت پر اعتماد کھو دیا ہے. پیو سروے کے مطابق 57 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ اب جمہوریت کا نمونہ نہیں رہا۔ کوئنیپیاک یونیورسٹی کے ایک سروے میں 67 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکی جمہوریت کو خاتمے کا خطرہ ہے۔
جبکہ ہزاروں سال کی زرعی تہذیب کا تجربہ کرنے والے چین میں انفرادیت کی بجائے اجتماعیت اور معاشرتی ذمہ داری پر زور چینی روایت اور ثقافت کا ایک حصہ بن چکا ہے۔بالخصوص اصلاحات اور کھلے پن کے گزشتہ چالیس سال سے زائد عرصے میں چین کی عظیم ترقیاتی کامیابیوں کی بدولت دور حاضر کے چینی معاشرے میں سماجی مفادات کا تنوع پایا گیا، عوامی معاملات میں سماجی شرکت میں بتدریج اضافہ ہوا اور حکومت پر رائے عامہ کی نگرانی مسلسل مضبوط ہوتی گئ ہے، جو چین کی “ہمہ گیر عمل کی عوامی جمہوریت” کی سماجی بنیاد اور ادارہ جاتی جدت طرازی کی محرک قوت بھی ہے۔ ظاہر ہےکہ چین اور امریکہ کی جمہوریت میں مختلف تاریخی اور ثقافتی جینز ہیں.
تو کس طرح کی جمہوریت حقیقی جمہوریت اور اچھی جمہوریت ہے؟
چونکہ جمہوریت کا اصل مطلب “عوام کی حکمرانی” ہے، اس لئے جمہوریت کی اچھائی یا برائی کے حوالے سے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا جمہوری نظام “عوام کو مالک بننے ” دےگا کہ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ چونکہ “عوام مالک ہیں” لہذا، جمہوریت پر عوام کی رائے اہم ہے ۔ لہذا “کیا عوام حکومت پر اعتماد کرتے ہیں” اور “کیا عوام مطمئن ہیں” جمہوریت جانچنے کے دو اہم معیارات ہیں۔ ایک اور کلیدی معیار بھی ہے جو جمہوریت کی تاثیر ہے۔ جمہوریت کوئی “گلدان” نہیں ہے، یہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ہے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے اور یہ جمہوریت کا بنیادی مقصد ہے.
مندرجہ بالا تین نکات کی بنیاد پر یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ جب تک جمہوریت ملک کے قومی حالات کے مطابق اور عوام کے مفادات کی نمائندگی کر سکتی ہے، یہ “حقیقی جمہوریت” اور “اچھی جمہوریت” ہے۔ سنگاپور میں موثر حکمرانی سنگاپور کے قومی حالات پر مبنی ہے جیسا کہ چین کرتا ہے۔ اس حوالے سے عالمی شہرت یافتہ امریکی کمپنی ایڈلمین انٹرنیشنل کی جانب سے اپریل 2023 میں جاری ہونے والی تازہ ترین سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ چینی شہریوں کا حکومت پر اعتماد 89 فیصد تک ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکی شہری اپنی حکومت پر چین کے مقابلے میں 47 فیصدی پوائنٹس کم اعتماد کرتے ہیں۔ دوسری جانب بین الاقوامی شہرت یافتہ پولنگ ایجنسی ایپسوس گروپ کی جانب سے جاری کردہ گلوبل ہیپی نیس انڈیکس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اور امریکہ سمیت 32 ممالک میں سب سے زیادہ خوشی کا انڈیکس رکھنے والا ملک چین ہے(91 فیصد)۔
چین اور سنگاپور میں جمہوریت کا کامیاب عمل ثابت کرتا ہے کہ کسی ملک کے قومی حالات کے مطابق تخصیص شدہ جمہوریت مؤثر ہے ، اور یہ کہ امریکی طرز کی جمہوریت انسانی جمہوریت کی واحد اور مکمل شکل نہیں ہے۔ “ایک شخص، ایک ووٹ” اور “سیاسی جماعتوں کی گردش” جمہوری عمل کی صرف بیرونی شکلیں ہیں، اور ان کی تاثیر کو عملی طور پر جانچنے کی ضرورت ہے. بعض مغربی ممالک کے لوگ صرف اس وقت پسند کیے جاتے ہیں جب وہ ووٹ دیتے ہیں، اور ووٹ ڈالنے کے بعد انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لوگ صرف انتخابی مہم کے دوران پرکشش نعرے سنتے ہیں جبکہ الیکشن کے بعد ان کی بات کوئی نہیں سنتا ۔ اس کے برعکس ، “قابل عمل اور کارآمد” چینی طرز کی جمہوریت کی نمایاں برتری ہے۔
جمہوریت کے مختلف راستے اور شکلیں، انسانی سیاسی تہذیب کی ترقی کا فطری نتیجہ ہیں۔ سیاسی نظام کا کوئی ایسا ماڈل نہیں ہے جو دنیا کے تمام ممالک پر لاگو ہوتا ہے ، اور جمہوریت کا کوئی طے شدہ ماڈل نہیں ہے۔ دنیا رنگا رنگ ہے اور جمہوریت متنوع ہے۔ جمہوریت کا ایک ہی ماڈل مسلط کرنا، یا یہاں تک کہ آمریت کے خلاف نام نہاد جمہوریت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اور دوسرے ممالک کو “مطلق العنان” قرار دینا بذات خود انتہائی غیر جمہوری ہے۔
“جوتے فٹ ہیں یا نہیں،صرف پہن کر پتہ چل سکتا ہے ” یہی “جمہوریت” کا اصل معنی اور صحیح منطق ہے۔