Friday, April 19, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزفاختہ آشیانے بناتی رہی۔۔۔27دسمبر

فاختہ آشیانے بناتی رہی۔۔۔27دسمبر

تحریر:عفت رؤف
محترمہ بے نظیربھٹو دنیائے سیاست کی ایک قد آور شخصیت تھیں عالمی سطح کے مقبول ترین سیاست دان ذوالفقارعلی بھٹو کی یہ بہادر دختر پاکستان میں خواتین بالخصوص سیاستدان خواتین کے لیے عزم وہمت،جرات واستقلال اور بہادری وشجاعت کا اعلیٰ نمونہ تھیں خیال و خواب بنتی چوبیس برس کی حاکم وقت کی لاڈلی شہزادی والد کی اسیری کے سبب سیاسی انتقام کا نشانہ بنی اپنی والدہ کے ہمراہ بے رحم شکنجے میں مقید کرلی گئی ناز و نعم میں پلی یہ ماہ رخ و ماہ جبین مچھ جیل کی اندہ ناک تپش کا ایندھن بنتی رہی۔ وہ گیسوئے حسین جن کی خوبصورتی کو تقویت دینے کے لیے بیش قیمت ہیئر آئل درآمد کیے جاتے تھے ہاتھ سے چھونے پربھی مٹھی میں بھر آیا کرتے تھے نازک اندام جسم گلتا محسوس ہوتا تھا لیکن سلاسل میں پابند ذہنی پختگی نے جو سفر طے کیا اقوام عالم میں بطور کامیاب جمہوری سیاستدان اس نے بینظیر کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا صاحبان بصیرت خوب آگاہ ہیں کہ قید و بند کی کس نوع کی مشکلات درپیش رہی یوں گی کہ وزیراعظم بنتے ہی انھوں نے خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد اور استعداد کار میں اضافہ کیا نہتی عورت ایک منظم عوامی منشور سیاست لیکر ثابت قدم رہی مردوں کے ذریعے تہمتوں اور تضحیک کا نشانہ بنی مگر مستقل مزاجی سے اپنا سفر جاری رکھا دو مرتبہ برسرِ اقتدار آئیں مگر دانستہ ان کی حکومت کو قبل از وقت ختم کردیا گیا تاکہ عوامی نظریے کی سیاست جو انھیں وراثت میں ملی تھی کہیں اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے بینظیر جہاں خواتین کے لیے مشعلِ راہ تھیں وہیں مرد سیاستدانوں کے لیے باعثِ خطرہ بھی تھیں وہ ایک مضبوط شخصیت کی معیاری سیاستدان اور حکمران خاتون سےاس قدر خوفزدہ ہوئے کہ تمام خواتین کو براہِ راست انتخابات اور عوامی مقبولیت سے دور رکھنے کے لیے مخصوص نشستوں کا شوشہ چھوڑا تا کہ سیاست میں خواتین کو لکیر کا فقیر رہنے دیں ایک تن تنہا عورت جس کا باپ آمریت کا نشانہ بن کر ناحق لقمہءاجل بنا،جس کے بھائیوں کو جلاوطنی پرمجبورکیا گیا اور پھر سازش سے موت کے گھاٹ اتارے گئے جس کے شریکِ سفر کی جوانی جیل کی نذرہوئی جس کے کمسن بچے باپ کی شفقت سے محروم ماں کے ہمراہ شہر شہر کی عدالت میں خوار ہوئے دشمنوں سے محفوظ رہنے کی غرض سے یہ قابل رہنما بچوں سمیت عرصہ دراز تک خود ساختہ جلاوطنی میں رہیں اور بالآخر طویل مدت بعد وطن واپسی ہوئی تو جمہوریت کی تگ ودو میں پھر مصروف ہو گئیں
بارشیں بھی مٹاتی رہیں محنتیں
فاختہ آشیانے بناتی رہی
نشانے کی زد پہ کھڑی اس فاختہ امن کو پے در پے حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار 27دسمبر 2007کا حملہ جان لیوا ثابت ہوا اور پاکستان عظیم سیاست دان سے محروم ہو گیا بینظیر ایک باصلاحیت حکمران تھیں ان کے کارہائے نمایاں میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کا خاتمہ،حقوق نسواں کی تحریک،داخلہ امور،بین الصوبائی اتحاد اور مضبوط خارجہ پالیسی شامل ہے انھیں اپنی تشہیر کے لیے انتخابات میں سرمایہ کاری کی ضرورت نہ تھی ان کے منظم سیاسی منشور اور حقیقی نسائی فلاح کے بل بوتے پر دنیابھر میں ان کے خطبات کو خوب پذیرائی ملی ان کی ناگہانی وفات نے خواتین سیاستدانوں کی حوصلہ شکنی کی ہے اپنی رفقا خواتین کے ہمراہ بینظیر نے جو سفر آغاز کیا تھا آج نئی رہبری کا منتظر ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان کی اپنی سیاسی جماعت بھی ان کے معیارات پر پورا نہیں اتر رہی۔