Thursday, March 28, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزمیجر جنرل بابر افتخار۔شاباش تو بنتی ہے

میجر جنرل بابر افتخار۔شاباش تو بنتی ہے

ڈیفنس کارسپانڈنٹ و تجزیہ کار احمد منصور کا بلاگ

ڈی جی آئی ایس آئی تقرری معاملہ منطقی انجام تک پہنچنے دینے کا سازگار ماحول بنا رہنے کا کریڈٹ تاریخ میں رقم، ڈی جی آئی ایس پی آر سرخرو ہو گئے ۔
باالآخر نوٹیفکیشن ہو گیا، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی تقرری کے معمول کے معاملے کو جس طرح الجھایا گیا اور جس نہج پر پہنچا دیا گیا اس کے بعد اتنی آسانی سے سمیٹا نہ جا سکتا جیسے نمٹ چکا۔ اس کا کریڈٹ یقینا تحمل، برداشت، صبر اور تدبر اختیار کیے رکھنے والی فوجی قیادت کو جاتا ہے وگرنہ ماضی شاہد ہے کہ وطن عزیز میں اس سے بھی کم نوعیت کی سسٹم کو روکنے کی کوششوں کے جواب میں طاقتور نے ہمیشہ طاقت کے روایتی طریقے اختیار کیے ہیں، چاہے ان کا خمیازہ ریاست کو ہی بھگتنا پڑے۔مگر اس مرتبہ طاقت کے مرکز سے متوازن رویوں کا عملی مظاہرہ پیش کیا گیا۔ بیانیے کی جنگ کے اگلے محاذ کی کمان سنبھالے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخاراس حوالے سے خصوصی طور پر داد تحسین کے مستحق ہیں، جنہوں نے قیادت کی حکمت عملی کو جس شاندار طریقے سے منطقی انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، سول ملٹری تنازعات کو ہینڈل کرنے کی تاریخ میں یہ ایک کارنامے کی حیثیت رکھتا ہے۔وگرنہ ہوتا یوں کہ چند اینکرز، یوٹیوبرز ، میڈیا ہائوسز کو ہلکا سا اشارہ ہوتا اور آئی ایس آئی، پاک فوج خاص کر آرمی چیف و آئی ایس آئی چیف کے خلاف جانے انجانے میں جاری مہم پر وزیراعظم کو جوابی طور پر نشانے پر لے لیا جاتا۔ طوفان بدتمیزی کیٹگری فور میں چلا جاتا اور نتیجے کے طور پر سارا نظام لپیٹ میں آ جاتا۔چند جملوں میں کی گئی مندرجہ بالا منظر کشی کو سمجھنے کے لیے کسی تشریح کی ضرورت نہیں، صرف نوے کی دہائی میں جانا ہی کافی ہے، مگر اس مرتبہ برداشت و دانائی کا وہ مظاہرہ پیش کیا گیا جس کی وطن عزیز میں ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے۔ باوجود تمام پریشر، پریشانی، تشویش یہ فیصلہ کہ ہماری طرف سے مکمل خاموشی اختیار رکھی جائے گی، ہلکا سا تاثر بھی نہیں جانے دیا گیا کہ بات کہاں تک بگڑ چکی حالانکہ میڈیا کے ان حلقوں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے جو ایسے مواقع پر بات باہر نکالنے کے ماہرہیں، میرے علم میں ہے کہ نہ کوئی چڑیا اڑی، نہ اندرونی ذرائع کام آئے، نہ مصدقہ ذرائع اور نہ ہی مقتدر حلقوں کے مطابق کچھ سامنے آیا۔ بلکہ اگر دوسری جانب سے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختیار کی راگنی بجوائی گئی تو میجر جنرل بابر افتخار اور ان کی ٹیم نے اس میڈیائی زہر کا اثر زائل کرنے کے لیے کامیاب فوری ایکشن لیا۔ اس حوالے سے پس پردہ کیا کچھ ہوا ہو گا یقینا مستقبل کی تاریخ میں ضرور سامنے آئے گا۔کریڈٹ صرف اس بات کا نہیں کہ شوروغوغا بریگیڈ کو قابو میں رکھتے ہوئے تنازعے کو مزید طول پکڑنے اور نظام کو نقصان پہنچانے والی صورتحال تک لے جانے سے بچا گیا۔ بلکہ اصل کریڈٹ یہ ہے کہ ایسا سازگار ماحول بنائے رکھا گیا جس کی وجہ سے سسٹم چلتے رہنے کے تمام ٹارگٹس اچیو ہوئیاور ادارے کے وقار، ڈسپلن کو مزید زک پہنچائے بغیر دستیاب بہترین آپشنز کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس تاریخ میں رقم ہونے والی کارکردگی سے ایک نکتہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہر محاذ پر بہترین کھلاڑی چن رکھے ہیں، نئے ڈی جی آئی ایس آئی ہوں یا کور کمانڈرز و دیگر سطح پر کیئے گئے تعیناتیوں کے فیصلے، انہیں اس طرح بحث و مباحثے میں لے آنا کسی طور دانشمندی نہیں بلکہ اس کے لیے کوئی بھی سخت لفظ استعمال کیا جائے تو نامناسب نہیں۔اس سب کے بیچ تحریک لبیک پاکستان کے پرتشدد احتجاج سے پیداشدہ صورتحال میں بھی میڈیا کے ذریعے افراتفری کا ماحول پیدا نہ ہونے دینے میں آئی ایس پی آر کے “خاموش” کردار سے لے کر سپریم کورٹ میں اے پی ایس کیس کے حوالے سے ماضی کے برعکس “ردعمل” نہ دینے کی حکمت عملی بھی کامیاب رہی۔ راقم اس رائے پر سختی سے کاربند ہے کہ ان معاملات کو زیر بحث لائے جانے کا راستہ بند ہونا چاہیے مگر المیہ یہ ہے کہ اس پر کلی طور پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ لیکن کم از کم ہمیں اپنے حصے کا کردار تو ضرور ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے مستقبل کے منظر نامے کی بہت ساری واضح نشانیوں کے باوجود اس پر رائے زنی سے گریز کر رہا ہوں ورنہ یہ تو اب سامنے کی بات ہے کہ اپنی غلطیوں، نااہلیوں، خامیوں یا بیوقوفیوں کی وجہ سے یکے بعد دیگرے لگنے والے دھچکوں سے تبدیلی کا موجودہ سیاسی نظام ہل چکا ہے۔ کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

صحافی/بلاگر کا تعارف
احمد منصور کم و بیش بیس سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، دفاعی و پارلیمانی رپورٹنگ کرتے ہیں، افواج پاکستان کے نظم و نسق، پیشہ وارانہ امور کے ساتھ ساتھ اقتدار کی رسہ کشی، حکومت اپوزیشن داوپیچ اور قومی سلامتی سے جڑے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

Email: mansoor.journalist@gmail.com
Twitter@OppoZitionVoice
www.facebook.com/OppoZitionVoice
https://youtube.com/c/AhmedMansoor