Thursday, April 18, 2024
ہومکالم وبلاگزبلاگزلا حاصل مستقبل کی منصوبہ بندی

لا حاصل مستقبل کی منصوبہ بندی

تحریر: محمد عثمان

@one_pak_

انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات پیدا فرمایا اوراس کے ساتھ عقل سلیم جیسی نعمت سے نواز کر انسان کو با اختیار کیا انسان ہربات کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذمہ نہیں ٹھہرسکتا۔ اچھائی وبرائی کی تمیز اورعملی طور پر پیغمبر اکرم ﷺ کی زندگی مشعل راہ بنا کر اللہ نے انسان کو کامیابی کا تعارف دیا ہے

انسان شیر خوارگی کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے تو اسے مستقبل کی فکرمیں مبتلا کردیا جاتا ہے اس آنے والے دن کی فکر میں مشغول کر دیا جاتا ہے جس کا سوائے اللہ کے کسی کو علم نہیں

اب یہ فکر ابدی مستقبل سے زیادہ عارضی مستقبل پر مرکوز کرائی جاتی ہے، لڑکپن سے کہا جاتا ہے خوب محنت کرو تب اچھی نوکری ملے گی، اچھی پڑھائی کرو تب اچھی نوکری ملے گی، اچھی نوکری ملی تو اچھا رشتہ ملے گا۔

بجائے اس کے کہ ہم تربیت کا اندازبدلیں کہ اچھے کام کروجنت ملے گی، نماز پڑھو سب سے پہلا سوال نمازکا ہوگا۔ مگرہم نے زندگی گزارنے کیلئے ذہن سازی ہی عارضی مستقبل کیلئے کی ہوئی ہے اوراس مستقبل کے پیچھے چل رہے ہیں۔

انسان اپنی زندگی میں اپنے عارضی مسقبل کیلئے کس قدرپریشان ہے آئیے دیکھتے ہیں

پہلے پندرہ سال تک پڑھائی کا بوجھ

بیس سے پچیس سال تک نوکری کی فکر مل جائے تو پرموشن کی فکر پرموشن ملے جائے تو ریٹائرمنٹ کی فکر۔ دوسری صورت میں ملازمت نہ ملے تو کاروبار کی تیاری دن رات کاروبار کی بہتری کی فکر اور دنیاوی ترقی کی فکر۔ اسی دوران شادی کی صورت میں ایک اور زندگی کی ذمہ داری اور کچھ برس میں اولاد ہوجاتی ہے پھر اس اولاد کے مستقبل کی فکر شروع ہو جاتی ہے

انسان کے اپنے خواب اور منزل اولاد کے پیدا ہونے کے بعد بدل جاتے ہیں نئی منزل و خواب اور مسقبل شروع ہو جاتے ہیں۔

انسان پہلے والدین کے لیے زندگی بسر کررہا ہوتا ہے وہ جیسے کہتے ہیں، ویسا سوچنا اورعمل کرنا شروع کر دیتا ہے، پھر زندگی میں آنے والے نئے ساتھی کے ساتھ عملی زندگی شروع ہو جاتی ہے اس کے بعد اولاد کو کسی مقام پر پہنچانے کی فکر اور ان کے محفوط مستقبل کی فکر لاحق ہو جاتی ہے

تو انسان اپنے لیے کہاں جی رہا ہے اپنا مسقبل کہاں بنا رہا ہے؟ صرف عارضی زندگی کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور وہ کام اپنے ذمے لیے پریشان ہو رہا ہے جن کی ذمہ داری صرف اللہ پر ہے

انسان اپنا مستقبل سنوارنے نکلتا ہے درمیان میں دوسروں کی فکر لئے قبر تک چلا جاتا ہے مگر وہ مسقبل جس کے حسین خواب دیکھے ہوتے ہیں وہ منوں مٹی تلے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں۔ انسان کے ذمے تو صرف دو طرح کے حقوق ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد اگر انسان ان دو چیزوں پر فوکس جما لے اور حتی المقدور انہیں پورا کر لے اور اللہ کی تقسیم کو رضا و رغبت سے من و عن تسلیم کرلے تو دنیاوی و اخروی مستقبل تابناک ہو سکتے ہیں۔